Pages

ملالہ یوسف زئی



ملالہ یوسف زئی پر حملے کو چار دن ہوگئے ہیں لیکن ابھی تک ہمارے میڈیا کا سوگ ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آرہا ۔ جس نیوز چینل کو دیکھو یا اخبار کو دیکھو وہاں ہر طرف ملالہ ملالہ ہورہی ہے۔ حتی کہ اب کی بار تو فیس بکیوں اور ٹوئٹریوں نے تو پاکستانی میڈیا کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ کسی بھی سوشل میڈیا سائٹ جیسے کہ فیس بک و ٹوئٹر وغیرہ پہ دیکھ لیں ہر طرف ایک ہی بات ہورہی ہے اور وہ ہے ملالہ یوسف زئی کی۔ ارے عقل کے اندھوں تم لوگوں وہ ہزاروں معصوم ملالائیں نظر نہیں آتیں جو روزانہ امریکہ بہادر کی طرف سے کئے جانے والے ڈرون حملوں میں اپنی جان کی بازی ہاررہی ہیں اور ان میں سے جوزخمی ہوتی ہیں وہ بےچاری ہسپتالوں میں ایڑھیاں رگڑتے رگڑتے اپنی جان سے چلی جاتی ہیں لیکن ان کا کوئی پُرسانِ حال نہیں ہوتا۔ نہ تو ان کو سرکاری سطح پہ علاج معالجہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور نہ ہی انہیں سرکاری ہیلی کاپٹرز پہ ایک ہسپتال سے دوسرے ہسپتا ل منتقل کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی خاطر ملک بھر کے نیورو سرجنز کو ایک جگہ حاضر کرلیا جاتا ہے۔اور نہ ہی ان کی خاطر ملک بھر کی مساجد میں اور تعلیمی اداروں میں دعائیں منگوائی جاتی ہیں۔ اور نہ ہی ان معصوموں کی خاطر ملک بھر میں دعائیں مانگی جاتی ہیں اور نہ ہی ہمارے مولوی حضرات کی طرف سے کوئی فتوی سامنے آتا ہے۔ اور تو اور ہمارے ملک کے نام نہاد لبرلز جن کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی پہ بننے والی فلم پہ احتجاج کرنے کےلئے الفاظ نہیں مل رہے تھے اب کی بار نے انہوں میڈیا و سوشل میڈیا پہ ایسا طوفانِ بدتمیزی برپا کیا ہوا ہے دونوں سے دل اُچاٹ ہونے لگ گیا ہے۔اور تو اور ملالہ یوسف زئی کے ساتھ اس حملے میں زخمی ہونے والی دوسری طالبات کے نام تک ان لوگوں کو یاد نہیں ہونگے اور نہ ہی ان لوگوں کو یہ علم ہوگا کہ وہ کس حال میں ہیں؟ کیا ان کو صرف اس بات کی سزا مل رہی ہے کہ انہوں نے چوہدری باراک اوبامہ کو ، محترمہ بےنظیر صاحبہ کو یا پھر دشمنِ وجودِ پاکستان و قائد اعظم باچا خان کو اپنا پسندیدہ نہیں کہا؟ یا پھر ان معصوموں کو باپردہ خواتین دیکھ کر پتھر کا زمانہ یاد نہیں آتا یا اگر کوئی خاتون ٹوپی برقعہ پہنتی ہے تو ان کو مذاق نہیں سوجھتے یا پھر داڑھیوں والے مردحضرات دیکھ کر ان فرعون کی یاد نہیں ستاتی؟


میں نے ملالہ یوسف زئی کی ڈائری کا بغور مطالعہ کیا ہے اور مجھے اُس میں ایسی کوئی خاص چیز نظر نہیں آئی جس کی بناء پہ اُس کو اتنے اعزازات سے نوازا جارہا ہے وہ صرف ایک بچی کا روزنامچہ ہے جس کو تحریر کسی اور نے کیا ہے اُس میں اپنی مرضی کی باتیں شامل کرکے اور ملالہ یوسف زئی کا صرف نام استعمال ہوا ہے یا اُس کو ایک مُہرے کے طور پہ استعمال کیا جارہا ہے۔ ہم عوام لوگ تو ہے ہی بھولے بادشاہ ہمارے سامنے کوئی بھی جذباتی بھاشن دے کر ہمیں بے وقوف بناسکتا ہے اور ہم لوگ بناء کوئی تحقیق کئے ان لوگوں کی باتوں میں آجاتے ہیں اور الٹا اپنا ہی نقصان کرنا شروع کردیتے ہیں۔ہم لوگ یہ نہیں دیکھتے یا سوچتے کہ اصل معاملہ کیا ہے۔

میری ناقص عقل کے مطابق اس سارے ڈرامے کا اصل مقصد ہماری جذباتی قوم کا دھیان کسی اور طرف بٹانا مقصود تھا تاکہ ہم لوگ ایک تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بنائی جانے والی گستاخانہ فلم کے بارے میں بھول جائیں اور دوسرا آج کل ڈرون حملوں کو لیکر اوبامہ انتظامیہ پہ جو تنقید ہورہی ہے اور ان سے اس بارے میں اُن سے جو سوالات ہورہے ہیں تواس حملے کی صورت میں ان کے درست ہونے کا جواز بھی مہیا کرنا ہے۔ اور اس کے علاوہ وزیرستان میں آپریشن کی راہ ہموار کرنا بھی ہے جس کے بارے میں ابھی حکومتی ایوانوں میں باتیں گونجنا شروع ہوگئی ہیں۔

میری اس تحریر کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ میں ملالہ یوسف زئی کے خلاف ہوں یا پھر اُس پہ ہونے والے حملے کی حمایت کرتا ہوں بلکہ مجھے بھی اُن معصوم طالبات پہ حملے کا شدید دُکھ ہے اوراس کے ساتھ ساتھ ملک میں آئے دن ڈرون حملوں میں شہید ہونے والے بے گناہ لوگوں کی موت کا بھی بہت زیادہ دکھ ہے اور میں اس کی بھرپور مذمت کرتا ہوں اور ہر اُس کردار سے شدید نفرت کرتا ہوں جو کہ اس قبیح فعل میں ملوث ہیں۔ اور نہ ہی میری ملالہ یوسف زئی کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی ہے وہ تو صرف ایک مُہرہ ہے۔

میری اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ملالہ یوسف اور اس کی ساتھی طالبات شازیہ اور کائنات کو جلد از جلد صحت دے اور ہم سب کو اتنی عقل دے کہ ہم حقائق کو جانچ کر درست اور غلط کا فیصلہ کرسکیں۔ آمین

0 comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔